پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک ملک میں ایک سوداگر رہتا تھا۔اس سوداگر کی تین بیٹیاں تھیں۔سوداگر کی بیوی اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئی تو سوداگر نے دوسری شادی کر لی۔ مگر خدا کی مرضی کہ اس کی وہ بیوی بھی ایک بیٹی کو جنم دے کر اللہ کو پیاری ہو گئی۔ سوداگر کی اس بیٹی کا نام ماہ پارا تھااور سب پیار سے اسے ‘ ماہ’ کہہ کر بلاتے تھے۔وقت گرنے کے ساتھ وہ تینوں جوان ہونے لگیں، مگر اس کے ساتھ دونوں بڑی بہنوں کے دلوں میں ماہ کے لئے حسد کا پودا تناور درخت میں بدلتا گیا ۔ وجہ ماہ کی خوبصورتی تھی۔ماہ نہایت خوبصورت ہونے کے ساتھ اعلیٰ اخلاق کی بھی مالکہ تھی۔ اس کی رحم دلی کے ساتھ نرم دلی کے دور دور تک چرچے تھے اورکبھی اس نے اپنے حسن پر غرور نہ کیا۔وہ جانتی تھی کہ یہ دنیا اور حسن سب فانی ہے اور سب کو ایک دن اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے،اس نے لاکھ چاہا کہ وہ اپنی بڑی بہنوں کو اس احساس کمتری سے نکال سکے ، مگر ناکام ٹھہری۔ وہ اپنے والد کو پریشانی میں مبتلا نہ کرنا چاہتی تھی مگر بڑی دونوں بہنوں کو اس بات کی ذرا پرواہ نہ تھی اور وہ لاڈ پیار میں اپنی بے جا ضدیں بھی اپنا والد سے پوری کرواتی تھیں۔ ان میں ماہ کی طرح سمجھ نہ تھی ، جبکہ ماہ ان دونوں کے مقابلے میں بلا کی ذہین بھی تھی۔
ایک دن سوداگر ، سوداگری کی غرض سے ملک سے باہر جانے لگا تو اس نے اپنی تینوں بیٹیوں کو اپنے پاس بلایا اور ان سے ان کی پسندیدہ چیزیں پوچھیں۔ بڑی دونوں بہنیں ہوشیار تھیں۔ انہوں نے اپنی پسندیدہ چیزوں کی لسٹ بنا کر اپنے والد کو تھما دی اور معصوم صورت بنا کر اپنے والد کا چہرہ دیکھنے لگیں۔ مگر سوداگر نے پیار سے ان کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بعد اپنی چھوٹی بیٹی سے پوچھا
“ہماری ماہ بٹیا کیا منگوانا چاہتی ہے ہم سے؟”اس نے پیار سے ماہ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تو ماہ ادسی سے مسکرا دی۔
“بابا ، ضرورت کی ہر شے ہمارے پاس موجود ہے ، بس آپ ہمارے لئے کہیں سے سیاہ گلاب لیتے آئیں۔” اسے بڑی دونوں بہنوں کا رویہ دکھی کر دیتا تھا۔وہ تنہا رہتے رہتے اکثر اپنی ماں کو یاد کیا کرتی۔ باپ کام کی غرض سے اکثر باہر ہوتا تو دونوں بڑی بہنیں موج مستی کرتیں۔ ماہ کی کوئی سہیلی بھی نہ تھی کہ جس سے باتیں کر کے وہ اپنا جی بہلا لیا کرتی۔
“ارے بس ایک سیاہ گلاب؟”سوداگر نے حیرت سے پوچھا تو بڑی بہنیں منہ چھپا کر ہنس پڑیں۔
“جی بابا ، بس ایک گلاب۔”یہ کہہ کر ان نے بابا سے پیار لیا اور کمرے میں چلی گئی۔
سوداگر دوسرے ملک روانہ ہو گیا ۔ اس بار اسے خوب منافع ہوا ۔ اس نے اپنی بیٹیوں کی پسند کی چیزیں بھی خرید لیں ، مگر اسے سیاہ گلاب کہیں سے نہ مل سکا ۔ آخر کار تھک ہار کر اس نے اس کی تلاش چھوڑی اور واپسی کی راہ لی۔ اچانک وہ چونک پڑا ۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا گھوڑا روکا ۔ ایک جگہ ایک چھوٹی سی نہر بہتی چلی جا رہی تھی ، مگر سوداگر کے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ ایک کنارے پر سیاہ گلاب لگا ہوا تھا۔ اس نے حیران ہوتے ہوئے گھوڑے سے اتر کر وہ سیاہ گلاب توڑ لیا۔ سونگھنے پر احساس ہوا کہ وہ گلاب بے بو تھا۔ مگر وہ خوش تھا کہ اسے گلاب مل گیاتھا۔
گھر پہنچ کر اس نے اپنی تینوں بیٹیوں کو اپنے پاس بلایا اور ان کی متعلقہ چیزیں انہیں تھما دیں ۔ ” بابا، میرا گلاب” ابھی سوداگر نے دونوں بڑی بہنوں کو ان کی چیزیں تھمائی ہی تھیں کہ ماہ نے بے قرار ہوتے ہوئے پوچھا۔
” بھئی یہ رہا تمہارا گلا ب۔”سوداگر نے اسے اس کاپھول تھمایا تو خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ سب آرام کی غرض سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئےتو ماہ بھی اپنے بستر پر آلیٹی۔کچھ دیر بعد اسے گلاب کا خیال آیا تو وہ پھرتی سے بستر سے اٹھی اور کمرے کے وسط میں بچھی میزپر رکھا گلاب لے آئی۔ اسے سونگھتے ہی ایک خوشگوار خوشبو کا احساس اس کے ارد گرد پھیلنے لگا اور وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگی۔خوشبو کا یہ احساس صرف ماہ کو ہی ہوا تھا۔
اس نے دھیرے سے وہ گلاب اپنے چہرے سے مس کیا تو اسے لگا کہ اس کا کمرہ سفید روشنی سے بھر گیا ہے۔ ہر جانب روشنی ہی روشنی تھی۔ اچانک ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا۔ سوداگر بڑی بیٹیوں، درشن اور روشن کے لئے ایک قالین اور ایک سرمہ بھی اپنی پسند سے لایا تھا۔ سوداگر جانتا تھا کہ ماہ چونکہ ان چیزوں سے دور بھاگتی ہے لہٰذا اس کے لئے صرف ایک گلاب پر اکتفا کیا تھا۔ درشن اور روشن کو یہ دونوں چیزیں پسند نہ آئی تھیں ۔ ان دونوں نے ناک چڑاتے ہوئے وہ دونوں چیزیں ایک طرف کو پھینک دی تھیں۔ ماہ کو بہت دکھ ہوا کہ ان کا باپ بہت چاہت سے ان کے لئے یہ دونوں چیزیں لایا تھا۔ اسے ان چیزوں کی ناقدری پر بے تحاشا رونا آیا تھا۔ اس نے چپکے سے وہ دونوں چیزیں اٹھا کر اپنے پاس سنبھال کر رکھ لی تھیں۔ اب اس نے سرمہ اور قالین اپنے سامنے رکھا اور ان پر غور کرنے لگی۔ پھر سرمہ اٹھا کر اپنی آنکھوں میں لگایا اور قالین پر بیٹھ گئی۔ چند لمحوں بعد اسے حیرت کا جھٹکا لگا کہ اچانک اس قالین نے اوپر کی جانب اٹھنا شروع کیا اور پھر وہ کھڑکی سے ہوتا ہوا باہر آسمان پر اڑنے لگا ۔ تاروں بھرے سیاہ آسمان پر کہیں کہیں بادلوں کے آوارہ ٹکڑے ادھر ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔ اس نے کھلکھلاتے ہوئے سفید بادلوں کو ہاتھ لگا یا تھا۔ مدھم اور سریلی ہوا میں اس کے خوبصورت سنہری بال اس کے کاندھوں سے اٹھ کر لہرانے لگے تھے۔ اس رات اس نے جی بھر کر آسمان کی سیر کی ۔ چاند تاروں کو ہاتھ لگایا۔ صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے وہ اپنے کمرے میں پہنچ چکی تھی۔ اسے ابھی تک یقین نہ آرہا تھا ۔ اس نے بے یقینی سے کچھ دیر پہلے کے واقعہ کو ذہن میں دوڑایا اور ششدر رہ گئی۔ جو کچھ ہو چکا تھا ناقابل یقین تھا۔ بہر حال سب بھلا کر وہ بستر پر لیٹی اور بے خبری کی نیند سو گئی۔
اب ہر رات وہ آسمان کی سیر کرتی اور بادلوں سے کھیلتی۔ دھیرے دھیرے وہ خوش رہنے لگی اور اس کی اداسی کہیں دور جا سوئی۔ درشن اور روشن بھی حیران تھیں کہ اس کی کوئی دوست ہے جس سے باتیں کر کے وہ خوش رہ سکتی ہے نا ہی ان دونوں بہنوں نے اسے اپنے قریب کیا کہ ان کی محبت اسےمسکرانے پر مجبور کرتی۔ پھر چند دنوں میں یہ کیا ماجرا ہو گیا کہ وہ مزید خوبصورت ہو رہی ہے اور اس کی آنکھوں میں اداسی کی جگہ روشنی نے لے لی ہے۔ وہ دونوں بہت کایا ں تھیں۔ انہوں نے اب اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو ماہ کو بے تحاشا خوشی ہوئی ۔ اس نے محبت سے دونوں کو گلے لگا لیا۔
ایک رات ماہ کو شدید بخار نے آلیا ۔ آج وہ سیر پر بھی نہ جا سکتی تھی۔ رات کے تیسرے پہر وہ بخار سے نڈھال تھی کہ اچانک اس کے کمرے کی کھڑکی زوردار ہوا کے جھونکے سے کھلی اور تیز خوشبو کے احساس نے اسے نیند سے جگا دیا۔ بے یقینی اور حیرانی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی۔ ایک نہایت حسین و جمیل پری زاد سامنے ہی اپنی خوبصورت روشنی کے ساتھ موجود تھی۔
”گھبراؤ نہیں اچھی لڑکی، میں تمہاری دوست ہوں۔ وہ قالین جس پر تم ہر روز بیٹھ کر رات کے وقت آسمان کی سیر کرتی ہو، وہ دراصل جادوئی نہیں بلکہ عام سا ایک قالین ہے۔ تمہیں یاد ہے ایک بار تمہارے دروازے پر ایک بچی پانی مانگنے آئی تھی۔ تمہاری بہنوں نے اسے دھتکار دیا تھا، مگر تم نے اسے پانی پلایا اور کھانا بھی کھلایا۔ وہ بچی دراصل میں تھی۔ تمہاری نرم دلی مجھے بہت پسند آئی۔ چنانچہ میں نے تمہیں اپنی دوست بنا لیا اور ایک رات تمہارے کمرے میں آئی تو تم ایک قالین پر بیٹھی اس کے اڑنے کی دعائیں مانگ رہی تھیں۔ مجھے بہت ہنسی آئی اور تمہاری معصومیت پہ بے تحاشا پیاربھی۔ پھر میں نے اپنے جادو کےزور سے اس قالین کو اڑنے کا حکم دیا تو وہ قالین اڑنے لگا اور یوں ہر روز تم دنیا بھر کی سیر کرتیں۔ آج تمہار ا گزر میرے پرستان کے سامنے سے نہیں ہوا تو مجھے اندیشوں نے آلیا کہ نجانے تم کس مصیبت میں ہو، چناچہ تم سے ملنے چلی آئی۔” پری کی بات سن کر کچھ لمحوں کے لئے تو ماہ بول ہی نہ پائی، مگر کچھ دیر بعد وہ اچھی پری سے باتیں کرنے لگی تھی۔ دونوں برسوں پرانی آشنا لگتی تھیں۔ پری نے اسے اپنے پرستا ن کی سیر کروائی، اپنے والدین سے ملوایا اور اسے اس کے کمرے میں واپس چھوڑ آئی۔
درشن اور روشن روزبروز اس کی بڑھتی ہوئی خوبصورت سے جلنے لگی تھیں۔ ایک رات وہ دونوں اس کے کمرے میں چھپ کر بیٹھ گئیں۔ اگرچہ انہوں نے ماہ سے دوستی کر لی تھی، مگر دل ہی دل میں ابھی بھی اس سے جلتی رہتی تھیں۔ اس رات کے بعد انہوں نے ماہ سے قالین چھین لیا۔ ماہ نے بہت دکھ سے انہیں دیکھا ، مگر انہوں نے قالین اور سرمہ اسے واپس نہ کیا ۔ ماہ بہت پچھتائی، اور پھر اس رات قالین پر ہوائی سفر کرنے کا راز کھلنے کے بعد وہ اچھی پری بھی اس کے کمرے میں نہ آئی۔ دونوں نے ماہ کو کسی نظرنہ آنے والی مخلوق سے باتیں کرتے بھی دیکھاتھا، مگر وہ ان دونوں کو دکھائی نہ دی۔ ماہ بہت روئی بہت چلائی مگر پری کی آمد خواب ہو چکی تھی۔ اب اسے اپنی لاپرواہی پر بے تحاشا غصہ آیا۔
درشن اور روشن نے قالین پر بیٹھ کر اڑنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ انہوں نے قالین جلا دیا اور سرمہ پانی میں بہا دیا ۔ ماہ پھر سے تنہا ہو گئی تھی۔ پری کی آمد اور پرستان سب خواب ہوگیا۔ اب وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتی مگر اسے سنبھالنے والا کوئی نہ ہوتا ۔ سوداگر نے جب اپنی لاڈلی کی یہ حالت دیکھی تو بہت پریشان ہوا۔ اس نے اپنے دوست سوداگر سے سارا معاملہ بیان کیا تو سوداگر نے اسے اپنے بیٹے سے مانگ لیا۔ سوداگر کے دوست کے بیٹے کا نام شاہ میر تھا جو بہت خوبصورت تھا۔ بلکل کسی ریاست کا شہزادہ لگتا۔ درشن اور روشن نے ابھی بھی اپنی بہن کا پیچھا نہ چھوڑا ۔انہوں نے مل کر ایک تدبیر سوچی اور ماہ سے تفصیلی بات کی ۔ انہوں نے اسے بتایا کہ شاہ میر ، ماہ سے نہیں بلکہ بڑی بہن درشن سے شادی کرنا چاہتا ہے، لہٰذا ماہ اپنے بابا کو صاف صاف بتا دے کہ وہ شاہ میر سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس طرح دوسرے کی مدد بھی ہو جائے گی۔
ماہ ، ازل کی نرم دل اور معصوم ۔ اس نے جب اپنے بابا سے اس بارے میں بات کی تو سوداگر نے خاموشی سے اس کی بات مان لی۔ وہ ماہ کی کوئی بات بھی ٹال نہ سکتا تھا۔ یوں درشن کی ، شاہ میر سے شادی ہو گئی۔ شاہ میر اس بات سے نآشا ہی تھا کہ اس کا سوداگر باپ ماہ سے اس کی شادی کروانا چاہتا تھا۔
ماہ بتدریج کمزور ہونے لگی۔ روشن آئے روز درشن کے گھر چلی جاتی ، پیچھے وہ اپنے کمرے میں زندگی کے ایام تنہا گزارنے لگی۔ سوداگر نے لاکھ اس کا علاج کروایا ، مگر وہ زندگی کی جانب نہ لوٹ سکی۔ سوداگر بہت پریشان تھا۔
ایک رات وہ اپنے کمرے میں پری کو یاد کررہی تھی کہ اچانک اسے سیاہ گلاب کا خیا ل آیا تو اس نے الماری سے وہ نکال کر اسے سونگھا، مگر اس کی خوشبو کہیں کھو چکی تھی۔ اس نے آخری بار پری سے ملنے کی دعا کی ۔ اچانک کمرے میں پری ظاہر ہوئی ۔ ماہ نے روتے روتے اس پری کو اس سے ملتے رہنے کی خواہش ظاہر کی مگر پری نے انکار کر دیا۔
“دیکھو اچھی لڑکی ! ہم پریوں کی اپنی ایک دنیا ہے ، جہاں ہم انسانوں کی طرح دل میں نفرت رکھ کر زندگی نہیں گزارتے۔ تمہاری بہنیں میرا راز جان چکی ہیں۔ میری والدہ نے مجھے یہاں آنے سے منع کیا تھا، مگر میں آخری بار ان سے اجازت لر تم سے ملنے اور تمہیں ساری حقیقت بتانے آئی ہوں۔اب اگر دوبارہ کسی نے مجھے تم سے باتیں کرتا دیکھ لیا تو میں پری سے ایک عام انسان بن جاؤں گی۔ کیا تم ایسا چاہو گی؟”
” اوہ نہیں، ہر گز نہیں۔ میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ میری وجہ سے کوئی پری اپنی طاقت کھو دے۔ آئندہ میں تمہیں یاد نہیں کیا کروں گی، تاکہ تم میری وجہ سے ہریشان نہ ہو۔ ” اس نے مسکراتے ہوئے پری کو الوداع کیا اور واپس بستر پر آلیٹی۔ سیاہ گلاب اس کے سرہانے رکھا تھا۔
وہ نیند میں تھی جب اچانک ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ ایک خیال نے اسے نیند سے جگا ڈالا تھا۔ سیاہ گلاب ابھی تک ترو تازہ تھا۔
اس نے نرمی سے اسے اپنے گالوں پر پھیرا۔ اسکی نم آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے اس گلاب کو نمی بخشی اور دوسرے ہی لمحے کمرے میں اندھیرا چھا گیا ۔ اندھیرا چھٹا تو اس نے خود کو ایک چٹیل میدان میں پایا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔سامنے ہی ایک ویران اور اجاڑ حویلی نما عمارت تھی، جہاں یوں لگتا تھا کہ جیسے صدیوں سے کسی کا گزر نہ ہوا ہو۔وہ حیران ہوتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔ دروازہ بہت بڑا تھا، جو عجیب وغریب آوازیں نکالتا ہوا ، زور دینے پر آہستہ آہستہ کھلتا گیا۔اندر پرانی اشیا رکھی تھیں۔ ایک طرف لکڑی کی ایک الماری میں کچھ چیزیں رکھی تھیں۔ اچانک اس کی نظر ایک سفید کاغذ پر پڑی ۔ماہ نے اسے اٹھایا اور جیسے جیسے پڑھتی گئی اس کی حیرت بڑھتی گئی۔ اس نے پھرتی سے وہ کاغذ وہیں پھینکا اور باہر کی جانب دوڑ لگا دی، مگر داخلی دروازہ کہیں کھو گیا تھا۔ کاغذ پر درج تھا:
“آج اس محل کا اس دنیا میں آخری دن ہے، آج رات یہ تباہ و برباد ہو جائے گا، اور پھر آدھی دنیا پر میری حکومت ہوگی، صرف میری ہاہاہا۔۔۔” وہ انجان تھی کہ یہ کس نے لکھا تھا، اور کون آدھی دنیا کا مالک بننے جا رہا تھا۔
وہ پریشان ہوتی ادھر ادھر پھرنے لگی۔ کمرے سے نکل کر وہ صحن میں آ گئی تھی۔ یہ مٹی سے اٹا ایک بہت بڑا صحن تھا، جہاں چاند کی دودھیا روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے پاس چند لمحے بچے تھے۔وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔ آنسو اس کی آنکھوں سے رواں دواں تھے۔ اس کے گالوں سے ہوتے ہوئے وہ آنسو زمین پر گر رہے تھے۔ اچانک وہ چونک پڑی۔ اسے اپنے ارد گرد تیز روشنی محسوس ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تیز خوشبو کے احساس نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو ششدررہ گئی۔وہ ایک خوبصورت سیاہ محل میں کھڑی تھی، جس کی ہر اینٹ سے ایک گویا ایک موتی جگمگاتا ہوا اسے عجیب خوبصورتی بخش رہا تھا۔ اس کالے سیاہ اور چاندنی رنگ کے امتزاج پر وہ دنگ رہ گئی تھی۔ آخر یہ کیا راز تھا؟
“پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اچھی لڑکی! میں تمہیں ساری بات بتاتا ہوں”اچانک اس کے پیچھے سے ایک خوبصورت شہزادہ اس کے سامنے آیا تو وہ ہق فق اسے دیکھے گئی۔
“بہت پرانی بات ہےاس محل کی ایک پری نے زمین کی سیر کی غرض سے وہاں کا رخ کیا۔ اپنے والدین کی نافرمانی کرتے ہوئے وہ دوسری بار بھی وہاں گئی اور ایک آدمی سے شادی کرلی، مگر اب اس کی طاقت ختم ہو چکی تھی۔وہ اب کبھی بھی پرستان کی دنیا میں واپس لوٹ نہیں سکتی تھی۔ اسے محل یعنی پرستان سے بے دخل کر دیا گیاتھا۔ اس کے جانے کے کچھ عرصہ بعد اس محل پر ایک چڑیل نے قبضہ کر لیا اور سب کو بت بنا کر اسی زمین کی مٹی تلے دفن کردیا۔ بے دخل کی گئی پری نے ایک گلاب اپنے محل سے توڑ کر اپنی ایک دوست پری کو دیا تھا۔ وہ جادوئی گلاب اس کی دوست سے کہیں کھو گیا اورپھر خودبخود ایک نہر کنارے اگ آیا تھا۔” شہزادہ رکا تھا۔ ماہ خاموشی سے اسے سنے گئی تھی۔
” ایک مدت بعد اس اجڑے دیار سے ایک جن کا گزر ہونا تھا۔ چڑیل اس جن سے شادی کرنا چاہتی تھی، مگر جن کی ڈیمانڈ تھی کہ وہ ایک ایسی چڑیل سے شادی کرے گاجو آدھی دنیا کی مالکہ ہو تاکہ شادی کے بعد وہ دونوں مل کر پوری دنیا پر حکومت کر سکیں۔ خوش قسمتی سے وہ جن ابھی یہاں نہ پہنچا تھا کہ وہ خط تمہارے ہاتھ لگ گیا۔ آج اس جگہ چڑیل کی حکومت ہونا تھی۔ اس کاوہ جادوئی چلہ بھی کامیاب ہو گیا تھا جس پر وہ کافی عرصہ سے محنت کر رہی تھی۔ خدا کاکرنا ایسا ہوا کہ اس کی بجائے تم یہاں آگئیں اور تمہارے آنسوؤں نے اس زمین کو ہریالی بخش دی۔” ماہ نے حیرانی سے اپنی نم آنکھوں کو چھوا تھا۔
” تمہارے آنسو نایاب ہیں ماہ پارا” شہزادہ نے یہ کہتے ہوئے دھیرے سے اس کے آنسو صاف کئے۔
” تم نے پھر سے میرے محل کو زندگی دی ہے ، میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس نے تمہارے ذریعے ہمیں ہماری جنت لوٹا دی ” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
” اب تم اپنے گھر چلی جاؤ۔ بہت جلد میں تم سے ملنے آؤں گا۔” اسے نے عزت و تکریم سے ماہ پارا کو اس کے گھر پہنچا دیا ۔ وہ خود ایک شہزادہ تھا، اس پرستان کا شہزادہ۔
اب کی بار ماہ کسی بھی قسم کے دھوکے میں نہیں آنا چاہتی تھی۔ پچھلی بار کی طرح اب وہ کچھ بھی کھونا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے گلاب نہایت احتیاط سے چھپا کر رکھ دیا اور ہر روز شہزادے کا انتظار کرتی۔ مگر شہزادہ نہ آیا ۔ وہ پھر سے اداس رہنے لگی۔ روشن کی بھی شادی ہو گئی۔ماہ اتنے بڑے گھر میں بولائی بولائی پھرتی رہتی۔ سوداگر نے ماہ کے لئے بھی رشتہ ڈھونڈا ، مگر کہیں بات نہ بن سکی۔ کوئی بھی اس بیمار لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ روشن اور درشن ” ماہ پر سایہ ہے” کہہ کر آنے والوں کو رخصت کر دیتیں۔ ماہ پارا کا حسن، اس کی خوبصورتی ماند پڑنے لگی۔ وہ شہزادہ کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی۔ ایک شام اس نے اپنی الماری سے گلاب نکالنا چاہا مگر یہ دیکھ کر بت بن گئی کہ وہ جادوئی گلاب وہاں موجود نہ تھا۔ اسی عرصہ میں سوداگر کا انتقال ہو گیا اور باپ کی وفات کے بعد درشن اور روشن نے ساری جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے ماہ کو بھی گھر سے نکال دیا اور ماہ دردر کی ٹھوکریں کھانے لگی۔ اسے کوئی بھی پناہ دینے کو تیار نہ تھا۔ جبھی ایک روز اسے آسمان سے ایک سفید گھوڑا اترتا دکھائی دیا۔ اب اس کی زندگی میں خوشیاں آنے والی تھیں۔ وہ دراصل شہزادہ گلفام تھا۔
“تم کہاں تھے اب تک؟”ماہ شکوہ کئے بنا نہ رہ سکی۔شہزادہ نے اسے اپنے ساتھ گھوڑے پر بٹھا لیا اور آسمان پر اڑنا شروع کیا۔
” یہ سب تمہارا امتحان تھا ماہ” شہزادہ نے مسکراتے ہوئی پر اسرار لہجہ میں کہا۔
“امتحان؟ کیسا امتحان؟” وہ چونک پڑی۔
“یہی کہ جو انعام تمہیں ملنے جا رہا ہے تم اس کے لائق بھی ہو یا نہیں؟” ماہ کے سر سے یہ ساری باتیں گزر رہی تھیں۔ باقی کا سفر خاموشی سے کٹا۔
اور پھر ماہ کی بہت دھوم دھام سے اسی شہزادہ کے ساتھ شادی کر دی گئی اور وہ پرستان کی ملکہ پری بن گئی۔
شادی کے بعد ما ہ کو معلوم ہوا کہ وہ ایک پری ہے اور اس کی ماں نے ہی زمین پر ایک آدمی سے شادی کرلی تھی، نتیجتا وہ اپنی ساری طاقت کھو بیٹھی تھی۔ مگر ماہ پارا میں وہ تمام صلاحیتیں اور قابلیتیں موجود تھیں جو ایک پری میں ہوتی ہیں۔ وہ بہت خوش تھی۔ اب اسے معلوم ہوا کہ کیوں اس کا دل انسانوں کی دنیا میں نہیں لگتا تھا۔ کیوں وہ ہر وقت گم صم اور اداس رہتی تھی۔ اس نے شہزادہ کے ساتھ پرستان کی دیکھ بھال اور دیگر امور سنبھال لئے۔ جلد ہی وہ پرستان کی رانی اور پھر مہارانی بن گئی۔ درشن اور روشن سمجھ رہی تھیں کہ اپنے باپ کی ساری دولت ہتھیا کر وہ بہت خوش رہیں گی، ماہ پارا خود ہی بھوک سے بلک بلک کر مر جائے گی اور اس طرح ان کی اس سے جان چھوٹ جائے گی، مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ وہ دونوں ہمیشہ انجان ہی رہیں کہ ماہ اپنی اصل دنیا میں پہنچ گئی ہے جہاں اس سے نفرت اور حسد کرنے والا کوئی موجود نہ تھا۔ درشن اور روشن کی دولت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی ۔ماہ کو معلوم ہوا تو وہ چپکے سے ہر ماہ ان کو کچھ نہ کچھ بھجوا دیتی اور وہ دونوں حیران رہ جاتیں کہ آخر یہ کون ہے جو ان کی مدد کر رہا ہے۔ مگر کبھی جان نہ پائیں۔ ماہ پار ا کے پاس دولت کے ڈھیر تھے مگر دل میں ذرہ برابر لالچ نہ تھا۔ ایک ننھی پری نے جس روز اس کے آنگن میں آنکھ کھولی ، پرستان میں اس روز خوشی کے شادیانے بج اٹھے ۔ ماہ پارا اور شہزادہ گلفام کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اور یوں وہ ہنسی خوشی پرستان میں زندگی گزارنے لگی۔۔۔
ختم شد
Helium balloon delivery in Dubai with fast and reliable service
balloons close to me http://balloons-and-helium.com/ .
Repair secrets that everyone should know, include important recommendations.
fridge door won’t close properly https://technirepair.com/10-common-refrigerator-problems-and-how-to-fix-them/ .
Изчистен и женствен стил с новата линия дамски комплекти
дамски комплекти http://www.komplekti-za-jheni.com .
Подарочные наборы алкоголя с доставкой и праздничной упаковкой
доставка алкоголя на дом круглосуточно http://www.dostavka-alkogolya-moskva-wwworld.ru/ .
Архитектурное проектирование и строительство загородного дома с авторским надзором
строительство загородных домов в спб http://www.stroitelstvo-zagorodnyh-domov178.ru/ .
Boost your winnings daily with special deals available at Mostbet
mostbetuz mostbet-uz-mosbet-kirish.com .
Dear Sir/ma,
We are a financial services and advisory company, and our investors have mandated us to seek business opportunities and projects for potential funding and debt capital financing.
Please note that our investors are based in the Gulf region and are interested in investing in viable business ventures or projects that you are currently executing or plan to undertake as a means of expanding your global portfolio.
We are eager to have more discussions on this subject in any way you believe suitable.
Please get in touch with me on my direct email: michaelanthony@capitalltduk.com
Looking forward to working with you.
Yours faithfully,
Michael Anthony
(Financial Advisor)
Capital Ltd Consulting LLC
Современные схемы лечения алкоголизма с применением проверенных препаратов
кодирование от алкоголизма вшиванием ампулы https://www.spb-lechenie-alkogolizma.ru .
Сувениры с логотипом на заказ — быстро, выгодно, надёжно
изготовление сувенирной продукции https://www.suvenirnaya-produktsiya-s-logotipom-1.ru/ .
Быстрая и безопасная уборка с экологичными средствами
клининговая служба клининговая служба .
High School in 1949 https://en.wikipedia.org/wiki/Chuck_Feeney/ .
Строительство деревянных домов под ключ с индивидуальной планировкой
дом деревянный под ключ https://www.derevyannye-doma-pod-klyuch-msk.ru .
Архитектурное проектирование и строительство загородного дома с авторским надзором
строительство загородных домов в санкт петербурге stroitelstvo-zagorodnyh-domov178.ru .
How Technologies Are Changing the Construction Process, for sustainable development.
evaluating contractor experience rapidlybuild.com/choosing-the-right-contractor-for-your-construction-project .