” آپ کا گھر، آ پکی جنت”


عورت نازک مزاج ضرور ہے ، مگر اس سے بڑھ کر مضبوط اور حوصلہ مند ایک مر د بھی نہیں۔ یہ عورت ہی ہے جو مرد کے مسائل کو دانشمندانہ فیصلوں سے حل کر کے ، اس کے گھر کو جنت بنا دیتی ہے۔ اس کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے ، حتیٰ کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اسے منزل تک لے جانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گھر ایک کانچ کی مانند ہے جو پتھر کے مکان سے گھر تک کا فاصلہ طے کرتے ہوئے عورت کی عظیم قربانیوں کی مثال بن جاتا ہے۔خوبصورت اور پر آسائش مگر سکون سے خالی گھر ایک قبر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عورت ہی ایک پرسکون گھر میں ایک پر سکون زندگی دیتی ہے، اس کے بنا مرد کچھ بھی نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ عورت بھی مرد کے بنا کچھ نہیں۔ کیونکہ ایک خالی دیوا ر سب پھلانگ کر آ جا سکتے ہیں جب تک اس پر چھت نہ ہو۔ مرد کا سایہ عورت کو ایک چھت فراہم کرتا ہے اور یوں ایک چاردیواری اور چھت ہی مل کر ایک گھر بناتے ہیں ، جہاں زندگی کے خوبصورت ایام ہنسی خوشی بسر کئے جاتے ہیں۔
عورت موم کی مانند ہوتی ہے۔ اسے جس سانچے میں ڈھالو، یہ وہی روپ اختیار کر لیتی ہے۔ اسے جیسے چاہو اپنی مرضی سے بدل ڈالو یہ کبھی شکایت کا موقع نہیں دے گی۔ مگر موجودہ معاشرے میں اکثرو بیشتر گھر مختلف مسائل کا شکار نظر آتے ہیں جس سے گھریلو سکون غارت ہو کر رہ جاتا ہے۔ دن رات کی پریشانیاں نیندیں لے اڑتی ہیں اور یوں انسان صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک پڑھی لکھی، ہنر مند اور باصلاحیت عورت کو، مرد کا اپنے مسائل سے دور رکھنا ہے۔ مرد چاہے جتنا ہی دانا کیوں نہ ہو، زندگی کے ہر قدم پر اسے اپنی ہم سفر سے مشورہ ضرو ر کرنا چاہئے۔ اس کا مقصد ہر گز عورت کو خود سے زیادہ پڑھا لکھا یا با شعور سمجھنا نہیں، بلکہ اس کے کئی اثرات زندگیوں پر مرتب ہوتے ہیں جو اگر دیر پا ہوں تو گھر واقعی آرام و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔
ایک عورت اپنا گھر بار، والدین اور پیارے رشتے چھوڑ کر صرف محبت کے بندھن سے بندھی نئے گھر میں قدم رنجہ نہیں فرماتی بلکہ محبت سے کئی زیادہ اہم وہ اعتبار ہے جو مرد ہی اسے بخش کر معتبر کرتا ہے۔ محبت تو اس کا حق ہے اور ہرگز اس کی حق تلفی نہیں کی جا سکتی ، لہٰذا محبت اور اعتماد لازم و ملزم ہیں ورنہ محبت سے تو جانوروں سے بھی پیش آیا جا سکتا ہے۔
متفقہ رائے سے کئے جانے فیصلے ، دونوں فریقین کے سکون کا باعث بنتے ہیں اور آنے والے پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے دونوں ہی پر جوش اور با ہمت ہوں گے۔
ایک مرد کبھی بھی اپنی بیوی سے اپنی آمدن بچا کر نہیں رکھ سکتا ، وہ اسے ہر گز نہیں چھپا سکتا۔ اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اس کی دولت ، اس کا پیسہ عورت کے مقدر سے ہے۔
ہماری معاشرے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جہاں دو خاندان اکٹھے زندگی بسر کررہے ہوں، وہاں یہ اونچ نیچ ضرور پائی جاتی ہے۔ مرد اپنی بیوی سے زیادہ اپنی شادی شدہ بہنوں اور ماں کو توجہ دے کر عورت سے اس کا اعتماد چھین کر اس کی شخصیت ہی مسخ کر دیتا ہے۔
عورت کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کا احترام مرد پر لازم ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل بحث ہے کہ اکثر مرد عورت کو تو ہر شے فراہم کرتے ہیں مگر خود سے لاپرواہ ہو جاتے ہیں۔ ایک عورت جہاں اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتی ہے، وہیں مرد کی ضروریات کو اپنی تکمیل کا خاصہ سمجھتی ہے۔
ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ دیواروں کو تو خوب پینٹ کیا جائے ، خوب سجایا جائے، مگر چھت کو رنگے بنا چھوڑ دیا جائے۔ یہ غیر متوازن سلوک جہا ں ایک آنکھ کو نہیں بھاتا وہیں دل بھی کھٹا ہو جاتا ہے اور جب کھٹائی دل میں پڑ جائے تو گھمبیر مسائل جنم لیتے ہیں۔
اکثر دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ مرد اپنے گھرانے کو بھر پور ضروریات زندگی فراہم کرنے کی تگ و دو میں خوب محنت کرتے ہیں اور پیسہ کمانے کے چکر میں اپنا قیمتی اور خوبصورت وقت گھر والوں سے دور گزارتے ہیں۔
پیسہ اولین ترجیح نہیں۔ سکون اعتماد پیار اور محبت سے بنیادیں بھرنے والا گھر ہی دراصل انمول ہوتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں دو صورتحال جنم لیتی ہیں کہ اطمینان بخش اور مطمئن زندگی گزارنا نہایت مشکل ہے کیونکہ
جہاں سکون کی فراوانی ہے ، وہاں پیسے کی قلت ہے۔
جہاں دولت کی ریل پیل ہے ، وہاں سکون کی اشد ضرورت ہے۔
پیسے کی قلت ، سکون کی کاٹ ہے لہٰذا اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
اس کے لئے مرد اور عورت میں ہی نہیں بلکہ اولاد میں بھی سمجھ کے ساتھ فکر کی ضرورت ہے۔ مگر فکر ایک خاص نہج پر پہنچ کر پریشانی کی صورت نہ اختیار کر جائے۔ اگر ایسا ہے تو جان لیجئے کہ آپ کے آدھے مسائل خودساختہ ہیں جو ناقابل حل ہیں۔
دوسری صورت کا حل نہایت آسان ہے۔ یہاں فکر کی نہیں اچھی سوچ کی ضرورت ہے۔ خوبصورت اور قابل عمل سوچ ہی آپ کی رہنما ہے ۔ یہ آپ کو آپ کے گھر والوں کی تنہائی سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ ایک اچھی سوچ بہت کچھ بدل سکتی ہے۔ یوں آ پ کی زندگی میں سکون ہی سکون ہو گا۔ آپ خود کو گھر میں نہیں، جنت میں پائیں گے کیونکہ جنت میں سب کچھ ہو گا بس پریشانی نہ ہو گی۔
آپ کی اولا د آ پ کا سکون ہے مگر یہ بھی یاد رکھئے کہ اولاد کا پہلا سکون اس کے والدین ہیں ۔ بچہ جہاں آنکھ کھولتا ہے ، پرورش پاتا ہے ، جوان ہوتا ہے ، وہیں اسی ماحول کے تناظر میں خواب دیکھتا ہے۔ آپ ڈانٹ ڈپٹ کر اسے ہر گز کسی راہ پر نہیں لگا سکتے ۔ آپ اس کی تربیت ہی اس انداز میں کیجئے کہ جوان ہو کر اس کا ہر فیصلہ آپ کی سوچ کے مطابق ہو ، نا کہ اسے اس قدر ڈھیل دی جائے کہ ایک وقت آنے پر اس کا کوئی ایک قدم بھی اس کے لئے ناقابل عمل ، آپ کے لئے ناقابل بیاں اور معاشرے کے لئے ناقابل برد اشت ہو۔
اس کے لئے آپ چھوٹی سی عمر سے ہی اس کی تربیت کر سکتے ہیں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوچھ کر اسے سمجھا سکتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے اور یہ درست۔ وقت کے ساتھ وہ اپنے ہر فیصلے میں آپ کو شریک ٹھہرائے گا اور اس طرح متفقہ رائے اور گھر کے ہر فر د کی شمولیت سے مسئلے بہت حد تک خود بخود حل ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک ہی پوائنٹ پر سب کا راضی ہو جانا ، باہمی رضا مندی کا ثبوت اور جھگڑوں سے احتراز برتنا ہے۔ یوں قابل ستائش ماحول دوسروں کے لئے مثال اور عملی نمونہ بن جاتا ہے۔
اولاد کی اچھی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک والدین میں کوئی ناچاقی ہو۔ فضول کی ضد ، بحث اور غلط فہمی ایک بچے کے ذہن پر بر ااثر ڈالتی ہے اور وہ ذہنی مریض بھی بن سکتا ہے۔ ہر وقت کا لڑائی جھگڑا اور باہمی ناراضگی اس کی صحت پر برا اثر ڈالتی ہے اوروہ احساس کمتری کا بھی شکا ر ہو سکتا ہے۔
آپ کا گھر آپ کی جنت اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ آپ ایک سربراہ کی حیثیت سے ایک اچھے شوہر اور ایک اچھے والد جب کہ آ پ کی شریک حیات خود کو ایک نئے فکری اور عملی سانچے میں نہ ڈھال لے۔ یہ نیا سانچہ آپ اسے فراہم کر سکتے ہیں ۔ آپ ایک قابل فہم اور سمجھ دار مرد ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے گھر کو اپنی جنت بنا سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں