”افسانہ ”چائے پراٹھا

اپنے سامنے میز پر رکھے گرماگرم بھاپ اڑاتے چائے کے کپ کو گھورتے ہوئے میرا دماغ کہیں اورتھا۔سوچیں مجھے بے حال کیے جا رہی تھیں۔ چائے سے اٹھنے والی بھاپ میں عجیب صورتیں بننے لگیں۔ میں بغور انہیں دیکھ رہا تھا۔ماضی کے بھوت پریت مجھے ڈرانے لگے اور اچانک ہی میں اچھل پڑا۔
شام کے چھے بج چکے تھے، میں نے وال کلاک پر نگاہ ڈالی اور سامنے رکھے پراٹھے کی جانب متوجہ ہو گیا، پھر تیزی سے پراٹھا توڑتے ہوئے اس کے بڑے بڑے نوالے بنا کر چائے میں ڈبو کر کھانے لگا۔آج صبح سے میں بستر ہی پر لیٹا رہا۔ آفس سے کئی بار کال آئی مگر اس نظر انداز کرتے ہوئے میں خود ہی سے لڑتا رہا۔
میں ماضی کو بھول جانے کی کوشش کرتا، لیکن ماضی کوئی چائے پراٹھا تو نہیں کہ اسے نگل لیا جائے اور اس کا وجود ختم ہو جائے۔ ماضی ہمیشہ رہنے والا یاد کی کڑوی چائے کا وہ زہریلاا گھونٹ ہے جو ہر کھانے کے ساتھ زہر مار کرنا ہوتا ہے۔
میں اٹھ کر گھر سے باہر نکل آیا……
آہستہ آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے میں قریبی باغ میں آگیا۔ میں نے ایک گہری نگاہ باغ میں لگے خوبصورت پھولوں پر ڈالی مگر یہ سب کچھ مجھے پھیکا محسوس ہوا، اپنی زندگی کی طرح……
”آج بھی تمہاری راہ تکتے ہوئے میں نڈھال ہوگیا ہوں، تم کہاں ہو؟ میری سزا ختم کیوں نہیں کیے دیتی۔ انتظار کی یہ راہیں اتنی طویل ہو گئی ہیں کہ اب اپنا وجود تھک ہار کر جیسے بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ گیا ہو۔“ میں ذرا رکا، پھر گہری سانس بھرتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھنے لگا۔
”میرے خوابوں کی پرواز محض اتنی ہی تھی اے آسماں! کہ تجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم توڑ گئے۔“میں آزردہ ہوا تھا۔
”بچپن سے لے کر آج تک ایک یہی خیال ستاتا تھا کہ نجانے زندگی میں ابھی مزید کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے پھر وقت گزرنے کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔
بچپن بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا، ماں کے ہاتھ کا بنا ناشتہ بہت مزے سے کیا کرتا۔ جب کبھی بہت اہتمام سے ناشتہ کرنا ہوتا، سبھی بہن بھائی ماں سے چائے پراٹھے کی فرمائش کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آج بھی اکثر میں تنہائیوں سے نکلنے کی خاطر چائے پراٹھا بناتا اور مزے سے کھاتا، یہ وقت میرے لیے ماضی سے کشید ایک ناقابل یقین خوشی کا ہوتا، مگر اسی خوشی میں ابا کی کرخت آواز دراڑ بن جاتی تو خوشی کے تمام لمحات بکھر کر رہ جاتے۔
ابا کواکثر ہی اماں کی بنائی چیزوں میں خامیاں دکھائی دیتیں اور وہ غصے سے چلانے لگتے، نتیجتا اماں اور ابا بحث بازی میں الجھ کر رہ جاتے اور ہم بہن بھائیوں کا کھانا کھانا دوبھر ہوجاتا۔
”آہ!“ ماضی کی کرچیاں میرے وجود کو زخمی کرنے لگیں، جبھی نگاہ کے سامنے ایک خوبصورت منظر ابھرا۔
”تم……؟“ خوشگوار حیرت سے سامنے دیکھتے ہوئے میں نے نازنین کی دلفریب آنکھوں میں اپنی محبت کا عکس دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”ہاں ……!“ اپنی دلکش اداؤں سے مسکراتے ہوئے وہ میرے روبرو تھی۔
”تمہارے ہوئے ہوئے ہی زندگی کا احساس ہوتا ہے۔“ دھیرے سے اس کا نازک ملائم ہاتھ تھامتے ہوئے میں نے کہا تو وہ شولڈر کٹ بالوں کو ادا سے جھٹکتے ہوئے سیدھی ہوئی اور پھر میری جانب دیکھتے ہوئے گویا ہوئی:
”کیا تمہاری ہمسفر واپس آگئی؟“ ا س کا سوال سن کر میرا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
”تم اس کا مزاج جانتی ہو، وہ کسی صورت اطمینان سے زندگی گزارنا نہیں چاہتی۔ ہر وقت کے جھگڑوں نے میرا بھی دماغ خراب کیا ہوا ہے۔“ وہ تلخ ہوتے ہوئے بولا۔ نازنین قہقہہ لگا کر ہنس دی۔
”دماغ تو تمہارا واقعی خراب ہے۔“ اس نے آنکھیں پٹپتاتے ہوئے کہا۔ اس کی یہی بے باکی مجھے پسند تھی۔ ایک عورت میں مجھے جو چاہئے تھا، میری بیوی میں ایسا کچھ نہ تھا۔ وہ سادہ اور گھریلو مزاج عورت تھی، وقت نے اسے لڑاکا بنا دیا تھا۔
ٹھیک ہی کہتے ہیں:
”بیوی کبھی محبوبہ کی مانند دل نہیں جیت سکتی، اگر محبوبہ بیوی بن جائے تواس میں محبوبہ والی ادائیں نہیں رہتیں۔“
ارد گرد کے ماحول سے بے خبر میں اس کی اداؤں سے ہر بار کی طرح گھائل ہو رہا تھا۔
”اور صائم……وہ کیسا ہے؟“ اس کے اچانک سوال نے مجھے چونکا دیا۔
”ہاں وہ ٹھیک ہے۔“ خود سے بھی نگاہیں چراتے ہوئے میں نے اپنے بیٹے کے بارے میں اسے بتایا۔لڑ جھگڑ کر کئی ہفتوں سے زویاصائم کو لیے اپنے میکے گئی ہوئی تھی۔
سورج ڈوبنے لگا تھا، اس کی مدھم پرتی کرنیں بھی افق کے اس پار ڈوب گئیں۔ اچانک ہی نازنین بھی منظر سے غائب ہوگئی اور تنہا شام کی مانند میں وہاں بالکل اکیلا رہ گیا۔ میں نے اپنے چاروں جانب نگاہو دوڑائی۔ نازنین مجھے اکیلا کرگئی تھی، ہمیشہ کی طرح……
میں ڈھیلے قدموں سے چلتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔
”ارے……“ چائے کا کپ اور آدھا بچا ہوا پراٹھا میرا انتظارکررہا تھا۔ میں نے خشمگیں نگاہوں سے خود کو آئینے میں گھورا۔ صائم کی آنسو بھری نگاہوں نے مجھے ساکت کردیا۔
”صائم!“ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھو لینا چاہا، مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اچانک صائم کی جگہ مجھے اپنا بچپن دکھائی دینے لگا۔
میں شاکڈ رہ گیاتھا۔
”بابا! آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں نا!“اچانک ہی مجھے اس کا خیال آیا، سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے صائم نے میرا دامن پکڑ لیا تھا۔
”تم نے چلنا ہے تو چلو، نہیں تو اپنے باپ کے پاس رہو۔“ زویا کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں، ایک صبح ایک معمولی بات پر شروع ہونے والی بحث جھگڑے کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ زویا نے اچانک ہی اپنے میکے جانے کا فیصلہ سنایا تو میں اسے روک نہ سکا۔ اس نے ناشتہ کرتے صائم کا بازوکھینچتے ہوئے اسے کھڑا کیا اور غصے سے ایک تھپڑ اسے رسید کردیا۔ میں بھی زور زور کی اس چیخ پکار سے تنگ آگیا تھا اور کچھ دن کے لیے سکون چاہتا تھا۔
”بابا!“ صائم نے اپنا ناشتہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔چائے کا کپ اور آدھا پراٹھاوہ یونہی چھوڑ گیا تھا۔ زویا اسے لے کر جا چکی تھی۔
گہری سانس بھرتے ہوئے میں پلٹا اور میز تک واپس آگیا، جہاں آج صبح کی ادھوری چائے اور نامکمل پراٹھا جوں کا توں پڑا تھا۔
بہت سے مناظر میری نگاہوں میں گڈ مڈ ہو گئے۔ میرا بچپن، ماں باپ کے بیچ ناچاقی……اور، اور صائم کا بچپن۔ کچھ بھی تو فرق نہ تھا۔ صائم کا بچپن بھی اداسیوں کے وزن تلے دبتا جا رہا تھا۔
میں ایک بار پھر آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔میں نے بغور خود کو دیکھا اور مسکرا دیا، مگر اگلے ہی لمحے میری مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ میں نے اپنی جگہ صائم کو دیکھا، صائم کی جوانی اور اس کی ناکام ازدواجی زندگی……
”ہاں شاید بچپن میں رہ جانے والی تشنگی اور محرومیاں انسان کی ازدواجی زندگی ہی کو متاثر کرتی ہیں۔ شادی کے اوائل دنوں میں زویا کی شخصیت متاثر کن تھی لیکن وقت کے ساتھ اس کے وجود کی تازگی مٹنے لگی۔ میری نگاہیں بارہا اس کے وجود میں نازنین کا عکس ڈھونڈتیں، مگر پانچ سالہ بیٹے کی ماں میں ایک دلکش وجود کی مالکہ نازنین کو کیسے دیکھا جا سکتا تھا۔
اگلے روز میں خاموشی سے زویا کو ساتھ لے آیا۔ شاید وہ بھی آزمائشوں کے استھان پر پڑی سسکتی زندگی سے بے زار ہو گئی تھی، جبھی میرے ساتھ خاموشی سے چلی آئی۔صائم البتہ بہت خوش تھا۔وہ مسکراتی نظروں سے کبھی مجھے اور کبھی اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔
میں زویا کے وجودکی باقی ماندہ رعنائیوں ہی سے خود کو خوش کرنے کی کوشش کرتا اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گیا تھا، مگر ایک روز اچانک نازنین چلی آئی۔
میں کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا، اسے دیکھتے ہی ایک جھٹکے سے سیدھا ہو گیا۔
”تم، تم پھر آگئیں؟“ میں نے غصیلے لہجے سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ وہ دلنشین مسکراہٹ گلابی لبوں پر سجائے میری کرسی کے ارد گرد چکر لگا کر مسکرا دی۔
”ہاں میں ……“ اس نے اپنے نرم و نازک ہاتھ میری پیشانی پر رکھ دیے۔
”میں تمہیں بھلا بیٹھا تھا، ہمیشہ کے لیے۔“میں بڑبڑایا تھا۔“
”میں نے تمہارا قتل کر دیا تھا، اپنے ہاتھوں سے تمہیں قتل کیا تھا۔“ میں ذرا دھیرے سے چلایا تھا۔ وہ بدستور مسکراتی رہی اور اچانک میرے سامنے آکر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی:
”عورت کی محبت ہر صبح بنائے ہوئے تازہ خوشبودار اور گرم بھاپ اڑاتے چائے پراٹھے کی طرح ہے، جتنا بھی دور بھاگو گے، اتنا اس کی خوشبو تمہیں اپنی جانب مائل کرے گی۔“ ا س کی بات سن کر میں دنگ رہ گیا۔
اس کی یہی باتیں اور عادات اب مجھے زویا کی جانب مائل کرتیں اور زویا بھی خوش رہنے لگی۔
٭
نازنین ……کوئی اور نہیں میرے خیالات میں چھپی ایک دلکش اور حسین عورت تھی جو بہت پہلے میرے خیالوں میں اتری اور میرے ساتھ ہی جوان ہوتی گئی۔ میرے بڑھاپے تک اس نے مزید جوان ہوجانا تھا۔میں دھیرے سے ہنس پڑا۔ ہاں یہی سچ ہے۔ مرد کی طبیعت قدرتی طور پر عورت کی جانب مائل رہتی ہے اور اگر عورت کا حسن ایک بار اس کے خیالات میں آبسے تو پھر زندگی بھر اس مرد کی زندگی میں بے سکونی آجاتی ہے کیوں کہ خیالات میں بسی پری پیکر اسے کبھی مل کر ہی نہیں دیتی۔

٭

چائے پراٹھا

اپنا تبصرہ بھیجیں